قطعات صفحہ نمبر۴
عادت رکھنا فروتنی کی اے دل
نخوت نہیں بھاتی ہے کسی کی اے دل
کھول آنکھ حبابِ بحر سے عبرت لے
بے مغز ہے جس نے سرکشی کی اے دل
٭٭٭
جن سے رہ ورسم کی وہ رہزن نکلے
بھولا جنہیں سمجھے تھے وہ پُرفن نکلے
جان اپنی جن احباب کو ہم سمجھے آہ
وہ دل کی طرح ہمارے دشمن نکلے
٭٭٭
وہ ذکر کروں کہ خود فراموش ہوں میں
کوئی نہ سنے پر ہمہ تن گوش ہوں میں
پائی ہے زبانِ نور کی شمع کی طرح
اندھیر ہو محفل میں جو خاموش ہوں میں
٭٭٭
جب تک کہ نہ دل ہو مدعا سے خالی
ہرگز نہ ریاضت ہو ریا سے خالی
پانی پر ابھی رواں ہو تو مثلِ حباب
سینا جو تیرا ہو ماسوا سے خالی
٭٭٭
ہے یہ دل صاف ما سوا سے خالی
کیوں ہو کوئی دیدِ دل ربا سے خالی
کعبے کی طرف طوافِ بت خانہ کیا
بت بھی نہ نظر پڑے خدا سے خالی
٭٭٭
کیا فائدہ بارِ سرکشی ڈھونے سے
کیا مثلِ حباب آبرو کھونے سے
آسیؔ یہ فروتنی وہ شے ہے کہ بلال
بالائے فلک ہے سرنگوں ہونے سے
٭٭٭
ہم پہنچیں گے اڑ کے جانِ شیدا کی طرح
رکنے کے نہیں جوشِ تمنا کی طرح
رہ جائیں رہِ طلب میں چلنے سے جو پائوں
ہم سر سے چلیں آبلہ پا کی طرح
٭٭٭
آوارہ نہ ہو غبار صحرا کی طرح
بیٹھ ایک جگہ نقشِ کف پا کی طرح
سرگرداں ہو کے دیکھ برباد نہ ہو
اندھا نہیں تو حبابِ دریا کی طرح
٭٭٭