قطعات صفحہ نمبر۲
ہے اہلِ جہاں سے ایسی تجرید مجھے
تجرید میں گویا کہ ہے تضرید مجھے
ان میں بھی نہیں میں پیشوا ہوں جن کا
سبحہ کے امام کی ہے تقلید مجھے
٭٭٭
بخشش جو تھی عدو کے دل کی بخشی
پر مجھ کو گلا نہیں ہے بخشی بخشی
مجھ کو بھی تو کوئی چیز بخشی آخر
سچ پوچھو جو مجھ سے تو نفیسی بخشی
٭٭٭
کیوں عزمِ چمن ہے خاطرِ بلبل میں
چوٹی کے ہیں پیچِ کاکل سنبل میں
فریاد سنی جائے یہ امید نہیں
غنچہ کچھ پھونکتا ہے گوشِ گل میں
٭٭٭
پھر بادۂ تند غصہ پینا ہوگا
پھر ٹکڑے جگر کے ساتھ سینا ہوگا
جینے نے یہاں کے مار ڈالا آسیؔ
سنتے ہیں کہ پھر حشر میں جینا ہوگا
٭٭٭
بے دل بہت اے دل بر عیار کیا
جب مر کے جئے تو قصدِ دیدار کیا
دنیا میں نہ گل نہ مل نہ قصر وایواں
اب دے کے بہشت کیوں گنہگار کیا
٭٭٭
باطن جسے سمجھے تھے وہ ظاہر نکلا
ظاہر بھی یہاں عین مظاہر نکلا
کیسے اغیار ، غیر کہتے ہیں کسے
اغیار میں بھی یار ہی آخر نکلا
٭٭٭
کیا جانتے تھے بعدِ فنا کیا ہوگا
طولِ شب تارِ گور اتنا ہوگا
اب روز قیامت کی درازی کیسی
کیا رات بڑھے گی دن نہ چھوٹا ہوگا
٭٭٭
ہم مشقِ وفا سے وفا تک پہنچے
زائل جو ہوئی خودی خدا تک پہنچے
ہاں عینِ وطن ہو جب سفرِ موج کی طرح
کیوں کر نہ کوئی حدِّ فنا تک پہنچے
٭٭٭
اربابِ محبت بھی غضب کرتے ہیں
ہر دم دم ِ مرگ جیتے ہیں جی بھرتے ہیں
کہنا وہ کسی سے نزع میں آسی کا
کیوں اب تو غلط نہیں کہ ہم مرتے ہیں
***