غزل
کوئی مست آنکھوں سے ناوک فگن تھا
لہو کے عوض مئے فشاں تن بدن تھا
غباراب جو اڑنے لگا جوش خط سے
بہت خشک شاید وہ چاہِ ذقن تھا
دھواں دے رہی تھی یہاں شمع ہستی
وہاں چہرے پر گیسوئے پر شکن تھا
نظر بازیوں نے جو مارا گھلا کر
وہ تار نظارہ مجھ کو کفن تھا
لیا خالِ ابرو نے ایمان میرا
مگر کعبہ میں دین کا راہِ زن تھا
٭٭٭