donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* سجدۂ درجو تمہارا نہ میسر ہوتا *

غزل

سجدۂ درجو تمہارا نہ میسر ہوتا
وہی ہم ہوتے، وہی سر، وہی پتھر ہوتا
خار، خار، غم اُلفت کی اگر حد ہوتی
روکشِ وادی مجنوں نہ مِرا گھر ہوتا
ہجر کی رات، بھی پہلو کو نہ خالی پایا
غم تمہارا دل ِ عاشق میں نہ کیوں کر ہوتا
بزمِ مے میں تو نکلتی کبھی بوسے کی ہوس
لبِ عاشق ہی الٰہی لب ساغر ہوتا
اور کر دیتی ہے بسمل نگہِ لطف اس کی
رحم آتا ہی کسی دن جو ستم گر ہوتا
دل ہی سپنے میں نہیں کون کرے بے تابی
لاکھ صدمے دو مجھے میں نہیں مضطر ہوتا
خیر آجاتی قیامت تو قیامت ہی سہی
دیکھ لینا تو کسی طرح میسر ہوتا
نہ تڑپتے کبھی اس ضعف میں ہم ذبح کے بعد
جو نظارہ نہ تمہارا تہِ خنجر ہوتا
عشق غار ت ہو کہیں مار ہی ڈالا مجھ کو
نقدِ جاں دے کے تواک بوسہ میسر ہوتا
دل میں وہ آئے مگر ناز نہ کر اس دل پر
یعنی آتے وہ عدو کا نہ اگر گھر ہوتا
شکلِ ابرو مہِ نو میں وہ کہاں جو ہرِ قتل
کیا فلک بھی مرے قاتل کے برابر ہوتا
چشمہ خور میں نہ کیوں محو ہوا مثلِ حباب
ایک ذرہ نہ ترے حکم سے باہر ہوتا
تم لپٹ جاتے اگر آکے مرے پہلو سے
نالہ شرمندہ نہ سینے سے نکل کر ہوتا
کوئی ہو، آنکھ ملاتے ہوئے ، تھا کام تمام
مثلِ تارِ نگہِ یار میں لاغر ہوتا
عرش پر کہئے تو اثبات مکاں ہوتا ہے
کیا فلک بھی مرے سینے کے برابر ہوتا
چاہتا تھا کسی خوش چشم کو اے حسرتِ زخم
موئے مژگاں رگِ جاں کے لئے نشتر ہوتا
مر گیا آسیؔ دل گیر بھی انا لِلّٰہ
مرضِ عشق سے کوئی بھی تو جاں بر ہوتا

٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 345