غزل
غیر موسیٰ کون ہم دم وادیٔ ایمن میں تھا
چور وہ بھی نشہ ٔ صہبائے مرد افگن میں تھا
نالہ کش جس کے لئے ہر باغ ، ہر گلشن میں تھا
خوب جو دیکھا وہی گل میرے پیراہن میں تھا
جو نہ اُٹّھے آسمانوں سے اُٹھالیں ہم وہ بوجھ
کیا وہ قوت سر میں تھی، کیا زور وہ گردن میں تھا
کون ہو منت کشِ تدبیر اے وقتِ شعور
کیا نہیں، اب ، وہ جو ضامن رزق کا بچپن میں تھا
اس تمنا میں کہ شاید ان کے دل تک راہ ہو
اس عداوت پر بھی میں برسوں دلِ دشمن میں تھا
قابلِ نذرِتجلی جان و دل سب تھے یہاں ہوش
موسیٰ کے سوا کیا وادیٔ ایمن میں تھا
خونِ ناحق گردنوں پر کیوں لیا منصور کا
مدعی قول انا الحق کا رگِ گردن میں تھا
ہائے وہ جلوہ وہ اندازِ ہجوم اہلِ دید
ایک موسیٰ زار گویا دل کے ہر روز ن میں تھا
وہ بھی نذرِ سینہ غم ناک بلبل کر دئیے
چند چاکوں کے سوا کیا پھولوں کے دامن میں تھا
محوِ خط یار رشک حور، سوز ہجر میں
سبزہ گلزار جنت میں تھا، مگر گلخن میں تھا
یارب انصافِ ستم ان کا شبغم تھا ضرور
شورِ محشر نالہ ہائے آسماں افگن میں تھا
کس کے پیکانِ دل افزا کا سیا تھا اس نے زخم
جوشِ آب زندگانی چشمہ سوزن میں تھا
دوست پر کس دوست نے کی ہوگی ناوک افگنی
ہو نہ ہو اے فتنہ گرد شمن تری چوّن میں تھا
سچ جو یہ شہرت نہ تھی آسی، کہ مرنا ہے وصال
کیوں قرار آیا تجھے، مدفن میں کیا مدفن میں تھا
٭٭٭