donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* صبح تک آج دھواں کوچۂ پیر میں تھا *

غزل

صبح تک آج دھواں کوچۂ پیر میں تھا

آگ کا جزو مگر نالۂ شب گیر میں تھا
حسرتِ عاشق و اُمیدِ عدو بسمل ہوں
کاٹ اتنا بھی نہ اُن کے دمِ شمشیر میں تھا
دیکھنا جانبِ گردوں وہ تیرینالاں کا
ہائے کیا جوش اثر حسرتِ تاثیر میں تھا
غش میں اس طرح گریں حضرت موسیٰ سے نبی
جلوۂ طور ضرور آپ کی تصویر میں تھا
دھو کے میں ابروئے قاتل کے جھکا دی گردن
کعبے میں بھی وہی تھا جو خم ِ شمشیر میں تھا
نالۂ عرش فگن کا بھی مزا اب چکّھے
کر چکا بس جو مزاجِ فلک پیر میں تھا
ہاں پھر اے واعظ مشفق مری تقصیر معاف
دھیان دورِ مئے گل رنگ و مزا میر میں تھا
اے لحد ہائے وہ بے تابیٔ شب ہائے فراق
آج آرام سے سونا مری تقدیر میں تھا
بے قراری نے کئے تھے جگر و دل یک جا
بہرہ در دونوں ہوں کب حوصلہ تیر میں تھا
سجن مومن کے یہ معنی تھا کہ تاقید حیات
پائوں زنجیر میں دل زلفِ گرہ گیر میں تھا
آرزوئے لبِ سوفارہ گرہ تھی شاید
ایک غنچہ چمن حسرت نخچیر میں تھا
کیا خبر حال کی اپنے تجھے دیتا شبِ ہجر
اے صنم!حال بھی کچھ عاشق دل گیر میں تھا
لالہ زار دل خوں گشتہ مرے عہد میں ہے
نجد کا بن جو کبھی قیس کی جاگیر میں تھا
قید میں جب نہ ہوئی دید تو ہو وعدہ خلاف
شورِ ہنگامہ محشر مری زنجیر میں تھا
آئینہ خانے میں تھا عاشق لاغر تیرا
یا کوئی تارِ نگہہ دیدۂ تصویر میں تھا
دے فشارِ لحدی یاد ہم آغوشی یار
خوابِ آرام نہ اب بھی مری تقدیر میں تھا
تادمِ مرگ نہ آسی کو میسر ہو وصال
کیا یہی طابعِ بدبخت جواں میر میں تھا

٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 348