غزل
کسی میں جو کئی فنا ہو گیا
نہ کچھ پوچھ آسی وہ کیا ہوگیا
پلائی ہے ساقی نے کیسی شراب
کہ جو رند تھا پارسا ہو گیا
کسی کے نکالے نکلتا نہیں
عدو بھی مرا مدّعا ہو گیا
دل ِ پر ہوس مرغِ نکہت کی طرح
اسیرِ کمند ہوا ہو گیا
جب اس کوچے میں جا کے رہتا تھا میں
جو چاہا کیا، جو کہا ہو گیا
اُڑا یا ہے کس گُل سے رنگِ چمن!
کہ ہر نخل، گل گوں قبا ہو گیا
انا الحق بھلا قولِ منصور تھا
بتائو توبندہ خدا ہو گیا
٭٭٭