غزل
بیٹھئے پاس میر ے دیکھئے روتا ہوں میں
گھر سے باہر تو عبث جاتے ہیں برسات میں آپ
اپنے مستانے سے محشر میں کہا ساقی نے
بیٹھے ہیں ظل علم پیر خرابات میں آپ
مل چکے دست حنائی کے ہمیں اب بوسے
جی چراجاتے ہیں شادی ٔ ملاقات میں آپ
قم باذنی ہے یہاں اور وہاں اذن خدا
بڑھ گئے حضرتِ عیسیٰ سے کرامات میں آپ
غیر ممکن ہے کہ قدرت سے ہو باہر ممکن
جب کہ عاجز نہیں آتے ہیں محالات میں آپ
جلوہ ایسا کہ جھپک جائے گا نگاہِ خورشید
پھر یہ کیا ہے کہ نظر آتے ہیں ذرّات میں آپ
آپ کی شام و سحر کہتی ہے اے حضرت دل
رات دن ہیں رخ و گیسو میں تو دن رات میں آپ
٭٭٭