غزل
ایسی ہی نہیں ہوتی کسی رنجور کی صورت
فرقت میں جو ہے عاشق مہجور کی صورت
ٹانکے میرے پھر ٹوٹ گئے زخم جگر کے
پھر بہنے لگے آنکھ سے ناسور کی صورت
اللہ رے تاریکی خورشید جدائی
ہے صبح میں اپنی شب دیجور کی صورت
ہم اوروں سے مل جائیں گے ہم سے نہ ملے وہ
کس بت میں نہیں اس بتِ مغرور کی صورت
زلفیں تیری منہ پر پڑی دکھلاتی ہیں ہم کو
آئینہ مجسم شبِ دیجور کی صورت
دیکھو گے تو صورت بھی نہ پہچان سکو گے
کیا پوچھتے ہو عاشقِ مہجور کی صورت
کیا پریوں کے جھرمٹ میں بھلا بیٹھئے جاکر
آنکھوں میں پرا کرتی ہے اس حور کی صورت
جو آنکھ ہے مستی میں وہ اک ساغرِ مئے ہے
دیکھے تو کوئی ساقیٔ مخمور کی صورت
ماتھا ہے قمر عارض پُرنو ر ہے و الشمس
پائی ہے میرے یار نے کیا نور کی صورت
٭٭٭