غزل
وفا دشمن ہو تم ہو یا ہو جفا دوست
بہرِ صورت مجھے رہنا رضا دوست
کوئی دشمن ہو آسیؔ یا مِرا دوست
میں سب کا دوست کیا دشمن ہو کیا دوست
جگر دل دونوں زخمی مہ لقا دوست
جبیں کھلتا کہ وہ دشمن ہے یا دوست
مرا سینہ حریفِ طور سینا
مرا دل جلوۂ برق فنا دوست
ترقی و تنز ل کی نہ پوچھو
میں دشمن ہو گیا دشمن ہو اور دوست
لباس امت عیسیٰ پہن کر
نہ پھر کہنا کہ ہیں آل عبا دوست
مجھے نیرنگ دل نے مارڈالا
یہ دشمن کا ہے دشمن دوست کا دوست
خدائی چاہتی ہے ہم خدا ہوں
کوئی ہوگا نہ ہوگا جو بقا دوست
فریبِ عالم صورت سے بچنا
نہیں کوئی کسی کا جز خدا دوست
نشانِ ہستی عاشق نہ رکھا
مگر دشمن ہے دشمن سے سوا دوست
فقیروں کا بنا لو بھیس آسیؔ
وہ شاہنشاہِ خوباں ہے گدا دوست
دعا میں رات آسیؔ کو بھی پایا
نہیں کوئی، نہ ہو جو مدعا دوست
٭٭٭