غزل
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
کہ تیرے نام کی رٹ ہے خدا نام کے بعد
شبِ وصال بیانِ غم جدائی کیا
فضول ہے گلۂ زخم التیام کے بعد
وہاں بھی وعدۂ دیدار اس طرح ٹالا
کہ خاص لوگ طلب ہوں گے بارِ عام کے بعد
گناہگار کی سن لو تو صاف صاف یہ ہے
کہ لطفِ رحم و کرم کیا پھر انتقام کے بعد
طلب تمام ہو مطلوب کی اگر حد ہو
لگا ہوا ہے یہاں کوچ ہر مقام کے بعد
وہ خط وہ چہرہ وہ زلفِ سیاہ تو دیکھو
کہ شام صبح کے بعد آئی صبح شام کے بعد
پیامبر کو روانہ کیا تو رشک آیا
نہ ہم کلام ہو اس سے مرے کلام کے بعد
ابھی تو دیکھتے ہیں ظرف بادہ خواروں کا
سُبو و خم کی بھی ٹھہرے گی دورِ جام کے بعد
الٰہی آسیؔ بے تاب کس سے چھوٹا ہے
کہ خط میں روزِ قیامت لکھا ہے نام کے بعد
٭٭٭