donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* وہ کون حسرت تھی دل کے اندر کہ وقف صد *

غزل

وہ کون حسرت تھی دل کے اندر کہ وقف صد پیچ و تاب ہو کر
جب آنکھوں تک جوش کھا کے آئی ٹپک پڑی خون ناب ہوکر
ہنوز پردے میں تم ہو لیکن ہزاروں فتنے اٹھا دئیے ہیں
مگر قیامت کرو گے برپا جو نکلو گے بے حجاب ہو کر
شگوفہ تھا دل کی بے کلی کا لطیفہ تھا بس وہ عاشقی کا
ادھر سے نکلا سوال ہوکر ادھر سے آیا جواب ہو کر
نعیم کیسی جحیم کیسی، کرشمے سارے یہ حسن کے ہیں
کسی کو لوٹا ثواب ہو کرکسی کو مارا عذاب ہوکر
وہ ہیں سوارِ سمندر خوبی ہلالِ شوال کی شوخی
گلے لگا اُن کے ہو کے کنٹھا قدم لئے ہیں رکاب ہوکر
بلندی اس کی اُسی کی پستی ہر ایک شئے میں اسی کی ہستی
عروج اُسی کا رسول ہو کر نزول اُسی کا کتاب ہو کر
وہ حسن جس پر نظر نہ ٹھہرے نہ ٹھہرے تماشے اس کے دکھا رہی ہے
کہیں صباحت نقاب ہو کر، کہیں ملاحت حجاب ہو کر
خبر جو محشر میں بھیڑ کی ہے وہ حسرتوں کا ہجوم ہوگا
وہ داغ ہوگا کسی کے دل کا جو چمکے گا آفتاب ہو کر
شناخت اس کی ہو سہل کیوں کر کہ جب نہ تب بھیس اک نیا ہے
وہ دن کو خورشید ہو کے نکلے تو رات کو ماہتاب ہو کر
میں دل سے اس شیخ کا ہوں قائل جو میکدے میں پڑھے تہجد
لگائے مسجد میں نعرے ہو حق کے محوِ دورِ شراب ہو کر
فراق میں اس قدر نہ روئو ںابھی تمہیں کچھ خبر نہیں ہے
بڑھے گی کچھ اور بے قراری وصال میں کامیاب ہو کر
نہ کر تو اس کی مذمت اتنی بہشت کی چیز ہے یہ واعظ
یہ بلکہ ہے عینِ بحر رحمت اگرچہ آیا شراب ہو کر
وہ جسم تھا یا کوئی گلِ تر، شمیم جس کی وہ روح پرور
جدھر سے گذرے بسا وہ رستا بہا پسینہ گلاب ہو کر
بچھا کے دامِ فریب پیری کسی کو بے ذوق کر دیا ہے
کسی کو بلبل بنا لیا ہے بہارِ باغ شباب ہو کر
نگاہ ان کی نہیں ہے برچھی کہ غمزہ ان کا نہیں ہے خنجر
کریں گے اقرارِ خون آسی کبھی تو وہ لا جواب ہو کر
جناب ناسخ کی یہ ہدایت ہے یاد رکھنا تم اس کو آسی
غزل میں ایسی ہوں شعر جن میں کمی نہ ہو انتخاب ہو کر

٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 349