غزل
وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
کیا جو عشق نے کاہیدہ مثلِ کاہ مجھے
کشش کسی کی اڑا لے گئی ہوا ہو کر
قرار جز دل عاشق کجا حسیناں را
وہ آخر آئے مرے دل میں جا بجا ہو کر
نہ پوچھو تندی و تیزی مئے محبت کی
جسے یہ نشہ چڑھا رہ گیا فنا ہو کر
میرا سفینہ تلاطم میں بحرِ عشق کے ہے
مزا تو جب ہے خدا آئے نا خدا ہو کر
بجز تمہارے کسی کا وجود ہو یہ محال
مگر تمہیں نظر آتے ہو ما سوا ہو کر
نثار کیوں نہ کریں جان اس پر اے آسی
فلک سے جا کے لگے جس کی خاکِ پاہوکر
٭٭٭