غزل
گل باغ میں زر ریز ہیں شبنم ہے گہر ریز
اک ہم ہیں کہ دن رات رہے لخت جگر ریز
جز اس کے کہ آنکھیں ہوں کبھی لخت جگر ریز
دیکھا ہی نہیں نخلِ محبت کوثمر ریز
بس بس مرے آگے نہ کرا ے مرغ سحر ریز
تیرا بھی کبھی نالہ ہوا کوئی شرر ریز
اُس رشکِ چمن ترک کے ہاتھوں کی کرامت
بلبل کی طرح کرتے ہیں گل ہائے سپر ریز
کیا جانئے سینے میں کہاں آگ لگی ہے
آہیں ہیں دھواں دھار تو نالے ہیں شرر ریز
کیوں عاشق گریاں سے ملاتے نہیں آنکھیں
دیکھو یہ وہ آنکھیں ہیں کہ رہتی ہیں گہر ریز
شیرینی لعل لب جاناں سے ہے ظاہر
طوطی خط سبز حسیناں ہے شکر ریز
موقع ہے یہی تجھ سے اُڑا کیوں نہیں جاتا
کیا ہجر ہے اے طائر جاں موسم پر ریز
یہ شام وصل ہے دھوکے میں نہ آنا
آسیؔ رخ محبوب ہے خود نور سحر ریز
٭٭٭