غزل
حسن کی کم نہ ہوئی گرمی بازار ہنوز
نقد جاں تک لئے پھرتے ہیں خریدار ہنوز
طائر جاں قفس تن سے تو چھوٹا لیکن
دامِ گیسو میں کسی کے ہے گرفتار ہنوز
ساتھ چھوڑ ا سفر ملک عدم میں سب نے
ساتھ لپٹی ہی رہی حسرتِ دیدار ہنوز
اپنی عیسیٰ نفَسی کی بھی تو کچھ شرم کرو
چشمِ بیمار کے بیمار ہیں بیمار ہنوز
ہم بھی تھے روزِ اول صحبتی بزم الست
بھولتی ہی نہیں وہ لذتِ گفتار ہنوز
کیا خراباتیوں کو حضرت آسیؔ نہ ملے
کہ سلامت ہے وہیں جُبّہ و دستار ہنوز
٭٭٭