غزل
سینہ صد چاک کے بنتے ہیں سب روز ن چراغ
دل میں ہے اس کے تصور کا جو عکس افگن چراغ
باندھ کر اکثر تصور اس رخ پر نور کا
خانہ دل میں کیا کرتے ہیں ہم روشن چراغ
ہو گیا سوز جنون سے کس قدر آتش قدم
رفتہ رفتہ کر دیا مجنوں نے بن کا بن چراغ
کیوں نہ ہو سوز رقابت بلبلو پروانہ سے
آتشِ رنگ چمن سے ہیں گل گلشن چراغ
جائے حیرت ہے رخ پر نور پر زلف سیاہ
سامنے کالے کے رہ سکتا نہیں روشن چراغ
ہجر میں یہ شمع رخ کیا کیا جلاتے ہیں مجھے
ہوتے ہیں شب ہائے فرقت کیا میرے دشمن چراغ
ہے سوار تو سن نازاک جوانِ مہہ جبیں
خانہ زیں میں ہوا ہے چاند کا روشن چراغ
عہد میں افضل کے شاعر کس طرح پائیں فروغ
سامنے سورج کے آسی کب ہوا روشن چراغ
٭٭٭