غزل
ایک عالم ہے کہ مقتل میںہے قاتل کی طرف
دھارخنجرکی فقط عاشقِ بے دل کی طرف
اس سے مانگابھی اگرکچھ تواسی کومانگا
دیکھناحوصلہ وہمتِ سائل کی طرف
زورہے جوشِ طلب کاکہ اسی کی ہے کشش
خودبخودپائوںاٹھے جاتے ہیں منزل کی طرف
نسبتِ شرک بجزتہمتِ بے جاکیاہے
دل ہے جب اس کی طرف رخ ہے وسائل کی طرف
مستی ٔ نعرۂ ہُوحق بھی کہیں وعظ میں ہے
چھوڑکرحق کوعبث جاتے ہیں باطل کی طرف
طعن وتشنیع سے نقصان نہیں ظاہرکا
طعنِ ناقص کبھی عائد نہ ہوکامل کی طرف
ترکِ دنیا توہے دنیاطلبی سے آساں
چھوڑکرسہل عبث جاتے ہیں مشکل کی طرف
میں خدنگ ِ نگہ ِمست کے صدقے ساقی
ایک تیراوربھی میرے دل ِ بِسمل کی طرف
ہائے تم نالہ ٔ پُردردہمارانہ سنو
گوِ گل ہے ہمہ تن شورِ عنادل کی طرف
کون اس گھاٹ سے اُتراکہ جناب آسیؔ
بوسہ لینے کوجھکے ہیں لبِ ساحل کی طرف
٭٭٭