غزل
پھونکی تمہارے عشق نے کیا تن بدن میں آگ
لیکن یہ ڈر لگا ہے نہ بھڑکے کفن میںآگ
قطرے تو پوچھتا ہے میرے اشک گرم سے
بھڑکے گی دامن بہت گل پیرہن میں آگ
موتی سے دانت لال ہوئے جب کہ پان سے
غل پڑ گیا کہ لگ گئی سارے عدن میں آگ
کس شعلہ روکے ساتھ میں سویا تھا رات کو
بھڑکی ہے آج سینہ چرخ کہن میں آگ
شیریں اپنے دست حنائی دکھا دئیے
ہے ہے نہ کیسے بھڑکے دلِ کوہکن میں آگ
لگ جائے آگ بلبلو ایسی بہار میں
گل کیا کھلائے پھونک دی ساری چمن میں آگ
٭٭٭