غزل
کیوں قافلے میں بیٹھ گئی پھر صدائے دل
کیا چوٹ کھا کے پھوٹ گیا پھر درائے دل
کعبہ کو شیخ بت کدے کو جائیں برہمن
ہم پوج لیتے ہیں درِ دولت سرائے دل
ڈھونڈھا ہے لا مکان تک اے دلربا تجھے
گھر کا تیرے پتہ نہیں چلتا سوائے دل
یارب اب اس قدر دل و دلبر میں ربط ہو
دل ہو فدائے دلبر و دلبرفدائے دل
محراب کعبہ صورتِ ابروئے یار ہو
طوف حرم سے بس ہے یہی مدعائے دل
کوچہ مقام شادی و غم کا ہے رات دن
ہردم بھری ہی رہتی ہے مہمان سرائے دل
٭٭٭