donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* جو آئی رنگ پر اپنی نخافت آشنائی می *

غزل

جو آئی رنگ پر اپنی نخافت آشنائی میں
رہوں گا چور بن کر یار کے دستِ حنائی میں
اسی خط سے سمجھ لو کیسی ظلمت ہے جدائی میں
سوادِ روز فرقت ہے جو حل ہے روشنائی میں
ادب آموز نکلا عجزِ راہ آشنائی میں
حباب آسا میں آنکھوں سے چلا بے دست و پائی میں
اجل رکھی ہے فرقت میں نہ گھبرا اے دلِ مضطر
وصال آسان ہو، جو ہر یہ ہے تیغِ جدائی میں
نہ دیکھی عالمِ بالا میں بھی سائل کی کچھ پرسرش
بھرا ہے کاسۂ مہ چودہویں شب کی گدائی میں
بھلا خط بھی تو آلیتا تو ہم سے وہ جدا ہوتے
وہ اپنے حسن سے بھی بڑھ کے نکلے بے وفائی میں
عدو کو بھی ہماری طرح وہ بے دل کریں یارب
خدا نا کردہ کیوں فرق آئے ان کی دل ربائی میں
مٹا دیکھو گے دم بھر میں نشانِ ہستیِ و ہمی
حباب آسا جو کھل جائیں گی آنکھیں آشنائی میں
تڑپ کر رہ گئے کیوں ہم وہ کیا دیکھا جدا ہوکر
مگر تیری ہی صورت تھی صنم تیری جدائی میں
یہ کہہ سکتا نہیں کس نے چرایا نقدِ دل میرا
مگر اتنا کہوں گا چور ہے دستِ حنائی میں
دلِ درویش کی گردش ہے دورِ جام جمشیدی
مذاقِ سلطنت پا یا ترے در کی گدائی میں
نہ کر ترکِ عمل ہر گز کہ اکثر دیکھ لیتے ہیں
رخ حسن قبول آئینہ زہد ریائی میں
تامل کرکے جس کو میں نے دیکھا تو نظر آیا
تراثانی نہ نکلااے صنم ساری خدائی میں
یہ بے ہوشی کہاں کی اے شبِ غم صورتِ موسیٰ
مگر کیف مئے دیدار ہے دردِ جدائی میں
کہاں کشتے یہ سمجھے تھے کہ مثلِ ابروئے پر خم
خمِ شمشیر بھی پنہا ہیں ان کی کج ادائی میں
حباب و بحر دونوں ہیں ہمارے قول کے شاہد
کہ ہم عالم سے بیگانے ہیں تیری آشنائی میں
باسِ ہستی ِعاشق کو رنگِ شعلہ میں رنگا
یہ جوہر ہے مئے دیدار کی رنگیں ادائی میں
کہاں داغی کہاں بے داغ، یہ کیوں کر برابر ہوں
نہ لالہ رنگ میں پائے نہ چاندان کو صفائی میں
کلام اتنا ہے اے بلبل کہ درد ایسا نہیں ممکن
یہ ماناہم نے تُوکچھ کم نہیںرنگیںنوائی میں
برا کیوں مانیں ہم، جو بھیس چاہو شوق سے بدلو
ہماری ہی نمائش ہے تمہاری خود نمائی میں
جو حبِّ زر ہے اے بے مغز الفت سے کنارا کر
حبابِ بحر کو خالی ہی دیکھا آشنائی میں
قدم رکھ سا لک راہِ طلب کا اپنی آنکھوں پر
بسانِ نقشِ پا کامل اگر ہے رہنمائی میں
کہاں جبہ کہاں چھینٹے شرابِ نابِ گل گوں کے
کہو آسی یہ کیا دھبا لگایا پارسائی میں

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 365