غزل
ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں
مگر غیر کا نقشِ پا چاہتا ہوں
جہاں تک ہو تجھ سے جفا چاہتا ہوں
کہ میں امتحانِ وفا چاہتا ہوں
نظارہ ترا بر ملا چاہتا ہوں
کہ پردے کی صورت اٹھا چاہتا ہوں
خدا سے ترا چاہنا چاہتا ہوں
میرا چاہنا دیکھ کیا چاہتا ہوں
مگر غیر کے دل میں ہم خانگی ہو
میں سوزِ رقابت بنا چاہتا ہوں
کہاں رنگِ وحدت کہاں ذوق وصلت
میں اپنے کو تجھ سے جدا چاہتا ہوں
برابر رہی حد یار و محبت
کسی کو میں بے انتہا چاہتا ہوں
کہاں ہے تری برقِ جوش تجلی
کہ میں ساز و برگ فنا چاہتا ہوں
وہ جب کھو چکے مجھ کو ہستی سے اپنی
تو کہتے ہیں اب میں ملا چاہتا ہوں
تمہارے سوا کچھ جواب سوجھتا ہو
پر اس سے بھی میں کچھ سوا چاہتا ہوں
محمدؐ کی امت کو تقلید موسیٰ
مگر میں بھی اب کچھ سنا چاہتا ہوں
جنونِ محبت میں پند و عدو کیا
بھلا میں کسی کا بڑا چاہتا ہوں
طبیعت کی مشکل پسندی تو دیکھو
حسینوں سے ترک وفا چاہتا ہوں
جو دل میں نے چاہا تو کیا خاک چاہا
کہ دل بھی تو بے مدعا چاہتا ہوں
یہ حسرت کی لذت یہ ذوقِ تمنا
شبِ وصل ادھر سے حیا چاہتا ہوں
سوا اس کے میں کیا کہوں تم سے آسی
کہ درویش ہو تم دعاء چاہتا ہوں
++++