غزل
جو ترش بھی تم ہو شکر لبو! کبھی جی نہ تم سے بُرا کروں
تم اٹھا کے ہاتھ جو کوسو بھی میں اسی طرح سے دعاء کروں
کوئی میرے دل کو لہو کرے کبھی یہ نہ ہو کہ گلا کروں
جو بھر آئے منہ میں بھی خون ِ دل تو برنگِ غنچہ ہنسا کروں
کبھی دل لیا کبھی جان لی ، کبھی صبر و ہوش کے سر گئی
جو یہی خوشی تو یہی سہی مجھے لوٹیں وہ میں ُلٹا کروں
نہ قصور کچھ ہے رقیب کا نہ گلہ کھ اس میں حبیب کا
یہ لکھا ہے میرے نصیب کا وہ ستم کریں میں سہا کروں
کبھی روتے روتے گیا ہے جی کبھی مر کے کاٹی ہے زندگی
مری جان پر کبھی رحم بھی کہ اسی طرح سے مواکروں
اجی آدمی ہی کی جان ہے مجھے یہ بتائو کہ تابہ کے
وہ دغا کرے یں دعا کروں وہ جفا کرے میں وفا کروں
یہ تھی التجا شب و روز کی مگر اب یقین ہوا یہی
نہ سنیں گے میری وہ ایک بھی میں ہزار کچھ نہ کہا کروں
یہ ہے حال آسی جاں بہ لب کہ کٹے کٹے نہ کٹے یہ شب
اُسے چھوڑ دوں میں خدا پر اب نہ دعا کروں نہ دوا کروں
٭٭٭