donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Aasi Ghazipuri
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* حباب بحر یہ کہتے ہوئے اوپر ابھرتے *

غزل

حباب بحر یہ کہتے ہوئے اوپر ابھرتے ہیں
فنا دم بھر میں ہیں دم آشنائی کا جو بھرتے ہیں
لبِ رنگیں کے غم میں اشکِ خوں رو رو کے مرتے ہیں
لہو سے ہم برنگِ لالہ جامِ عمر بھرتے ہیں
عدو کیا دل ہی دل میں رشک سے پس پس کے مرتے ہیں
دل وارفتۂ عاشق جو وہ پامال کرتے ہیں
الجھ کرگیسوئے شب رنگ میں فریادکرتے ہیں
اندھیرے میں مگر طفلِ دل عشاق ڈرتے ہیں
عدو کیا موت ہے، آنے سے اس کے ہم جو ڈرتے ہیں
تو کیا عمر رواں ہے جو ترے جانے سے ڈرتے ہیں
یہ نالہ بھی مگر الفت کسی کی ہے جو کرتے ہیں
یہ آئیں دن ہیں گویا زندگانی کے جو بھرتے ہیں
حیا جن کو خدا نے دی بگڑنے میں سنورتے ہیں
اجی غیرت سے رنگ اڑتے نہیں چہرے نکھرتے ہیں
زبانِ تیغ قاتل سے نہ کچھ پھوٹے یہ ڈرتے ہیں
کہے قاتل تو کیا ہم قتل سے اپنی مکرتے ہیں
کٹے یہ رات کیوں کر ہائے کیا صدمے گذرتے ہیں
نہ وہ آتے ، نہ صبر آتا، نہ نیند آتی، نہ مرتے ہیں
بھلا کس منہ سے ہم انکار ِ درد و عشق کرتے ہیں
نہیں ہے کچھ تو کیوں رہ رہ کے دل پر ہاتھ دھرتے ہیں
دلِ صد پارہ نازک طبع اپنا یاد آتا ہے
ہوا کے چلنے سے گلشن میں جب غنچے بکھرتے ہیں
جو آیا ان کے دامِ فکر میں پھر جا نہیں سکتا
پکڑ کر طائر مضموں کو شاعر پر کترتے ہیں
رخ مہتاب پر زنگی کے منہ کی پھبتی ہوتی ہے
شبِ مہتاب میں جب وہ نہا دھو کر نکھرتے ہیں
ہے اس میں اور ہم میں آفتاب و شمع کا عالم
وہ جب تک آئے آئے آپ دنیا سے گذرتے ہیں
ضعیفی ناتوانی دیکھ کر بیمارِ الفت کی
ہر ن چشم سیہ کے شیر بن بن کر بپھرتے ہیں
وہیں کے ہم برنگِ اشک ہو رہتے ہیں ، پا قسمت
جہاں گھر سے نکل کر جوش رقت میں ٹھہرتے ہیں
زبانِ خنجر پر آب قاتل سے سنا ہم نے
مسافر قلزم غم کے اجل کے گھاٹ اترتے ہیں
اثر کچھ آہ و نالہ میں، نہ کچھ تاثیر رونے میں
تو پھر نامِ محبت ہم عبث بد نام کرتے ہیں
بہت برہم ہیں گیسو ان کے ، بن کے صورتِ شانہ
جگر صد چاک ہو جائے تو ہم سے بھی سنورتے ہیں
جوسنتاہے برنگِ طائرِ بسمل تڑپتاہے
دلوں میں تیربن کرنالے اب تاثیرکرتے ہیں
تنگ ظرفی عددئے ہستی ٔ فانی ہے دیکھ اے دل
ہزاروں بلبلے دن رات پانی پراُبھرتے ہیں
اسی دل کی بدولت جونہ ہوناتھاہوامجھ پر
میں خوش ہوتاہوں اب دل پرجوکچھ صدمے گزرتے ہیں
کفِ افسوس ملنے کامزابلبل سے اب پوچھو
شبابِ فصلِ گل ہے کلیوںکے جوبن اُبھرتے ہیں
یہ وہ ہیں دیکھ کرجن کونگاہیں پھرنہیں سکتیں
مگرمرُغِ نگہ کے بھی ستم گرپرکترتے ہیں
نتیجہ زندگی کاعشق بازی کے سواکیاہے
حقیقت میں وہی جیتے ہیں بس تجھ پرجومرتے ہیں
مرے مے نوش نے اک روز کُلّی مُنہ سے پھینکی تھی
حبابِ بحرجامِ بادہ بن بن کراُبھرتے ہیں
ضرورت کیا دُعامانگوخداسے مرگِ عاشق کی
جنازے پراگرآجائوہم بے موت مرتے ہیں
جرس کی طرح نالاں ہوں میں اپنے منہ کے دانے سے
جوسالک ہیں وہ روزے رکھ کے طے یہ راہ کرتے ہیں
عداوت ہے سیہ چشموں کوہم سے بعدِ مُردن بھی
لحدپرجواُگا سبزہ ہرن آآکے چرتے ہیں
کسی کشتی نشیں کی راہ تکتے ہیں مگریہ بھی
سراپاچشم ہوکرکیوں حبابِ کبرابھرتے ہیں
نہ وہ بے تابی ِدل ہے نہ وہ بے خوابی ِ فرقت
لحدمیں چین سے عاشق پڑے آرام کرتے ہیں
نہ چاہے گابھلاکوئی بھی مرنا اپنے دشمن کا
بہت خوش ہوں جوسنتاہوں کہ تم پر غیرمرتے ہیں
تمہاراوصفِ دنداں اپنی شرحِ گریہ لکھ لکھ کر
قلم کے منہ کوگویاموتیوں سے آج بھرتے ہیں
کہیں جنبش کی طاقت بھی ہے اب ہم ناتوانوں میں
اتاریں دل سے وہ ہرچند لیکن کب اترتے ہیں
لگی کچھ آگ دل میں یاکلیجاہوگیاپانی
کہ نالے سب ہیں گرماگرم آہیں سردبھرتے ہیں
بہت گردش سے بھی پھرجاتی ہے آئی ہوئی روزی
یہی پھرپھرکے سنگ آسیافریادکرتے ہیں
بجزعاشق کوئی کیاپائے رمزیں اپنی باتوںکی
تری چشمِ سخن گوکی طرح تقریرکرتے ہیں
یہ متوالاکیاپیرِمغاں نے آج آسیؔ کو
کہ دستارِ فضیلت رہنِ جامِ بادہ کرتے ہیں

٭٭٭

 
Comments


Login

You are Visitor Number : 429