غزل
تمہیں کثرت سے نفرت اور محوِ ذوق وحدت ہو
کچھ اس سے اور بڑھ جائو تو وحدت ہو نہ کثرت ہو
نہ ستاری کو شرم آئے نہ غفاری کو غیرت ہو
قیامت میں ترا بندہ ترے آگے فضیحت ہو
مری نظروں میں تو ہو، ڈر ترا، تیری محبت ہو
نہ دنیا ہو ، نہ عقبیٰ ہو، نہ دوزح ہو ، نہ جنت ہو
سوا تیری نہ مائل ہو کسی پروہ طبیعت دے
تری الفت ،ہو تیرا عشق ہو، تیری محبت ہو
مجھے ہر طرح کی خود بینیوں سے کردے بے گناہ
جو آئینہ بھی میں دیکھو ں نمایاں تیری صورت ہو
ہماری دید میں، فہمید ،میں دے ایسی یک رنگی
کہ صورت عین ِمعنی اور معنی عینِ صورت ہو
ہمارے قتل کی نوبت اگر آجائے مقتل میں
الٰہی دستِ قاتل میں تیری تیغِ محبت ہو
انیسِ خلوتِ تنہائیِ کنجِ لحد میرا
ترا لطف، وکرم تیری عنایت، تیری رحمت ہو
ہم ایسے بد نصیبوں کی لحد اور اس کو توروندے
ترا ہر نقشِ پا رشکِ بہارِ ہشت جنت ہو
کہیں اکسیر سے بڑھ کر ہے دولت خاکساری کی
جہادِ نفس کا شاید ہی مالِ غنیمت ہو
وہ برقع سے نکالا چاہتے ہیں روئے زیبا کو
یہاں جو غیر ہوں کہہ دو کہ اب تم لوگ رخصت ہو
کہاں وہ خواہش ِبالین و بالش اب بجز اس کے
کہ سر ہو اور سنگِ آستانِ بابِ رحمت ہو
کیا یہ لاغر و کاہیدہ فرقت نے کہ مرنے پر
تمہارا نقشِ پا ہی مجھ کو کافی بہتر تربت ہو
جناب شیخ ! زہد خشک سے کیا کام نکلے گا
در پیرِ مغاں ہو اور دخت ِرز سے صحبت ہو
٭٭٭