غزل
دھیان اس غیرت گل کا دم گریہ ہے مجھے
عطر کی طرح جو کرنے لگے خوشبو آنسو
پانی کس سے تیری فرقت میں پیا جاتا ہے
آنسو پیتا ہوں تو ہو جاتے ہیں چھو آنسو
چوسنے لگتی ہے دامن کو زبانِ شمشیر
کبھی گرتے ہیں جو بہر خم ابرو آنسو
رہ گئے ایک طرح سے جو گرے دامن پر
ہائے رے ضعف بدلتے نہیں پہلو آنسو
ہو گیا ہے گزر عاصیٔ گریاں شاید
دامن ِدشت جنوں آج ہے آنسو آنسو
٭٭٭