غزل
دردِ دل کی کوئی تدبیر طبیبو لکھ دو
داروئے عاشق دل گیر طبیبو لکھ دو
خاک کوئے بت بے پیر طبیبو لکھ دو
یہ دوا مجھ کو ہے اکسیرطبیبو لکھ دو
مشک نافہ مرے نسخہ میں جو لکھنا ہو تمہیں
گرہ زلف گرہ گیرطبیبو لکھ دو
کیا دوا لکھتے ہو، صحت جو مری چاہتے ہو
سنبلِ زلف گرہ گیر طبیبو لکھ دو
زلفِ شب رنگ کے سودا کو نہ ہوگی صحت
ڈال دیں پائوں میں زنجیر طبیبو لکھ دو
لکھ دو کافور بنا گوش مرے نسخہ میں
صبح عارض کی طبا شیر طبیبو لکھ دو
میری جانب بھی وہ بت چشم ِکرم سے دیکھے
نسخہ سرمہ تسخیر طبیبو لکھ دو
نہ لکھو بہر خدا عنبر اشہب مجھ کو
خال روئے بت بے پیر طبیبو لکھ دو
جوش دینے کو علاج تپ دل کو میرے
آتش نالہ شب گیر طبیبو لکھ دو
خیر! اب اور تو کیا آسیؔ بے تا ب کہے
وہ دوا جس میں ہو تاثیر طبیبو لکھ دو
٭٭٭