غزل
جو یہ ضد ہے کوئی بلبل کی صورت نعرہ زن کیوں ہو
کوئی گل فام کیوں ہو، گل بدن، گل پیرہن کیوں ہو
ہمارے بعد تو بد نام اے رشک چمن کیوں ہو
ہمیں جب ڈوب ہی مرنا ترا چاہ دقن کیوں ہو
تمہیں سچ سچ بتائو کون تھا شیریں کے پردے میں
کہ مشت خاک کی حسرت میں کوئی کوہ کن کیوں ہو
سن اے بد مست! موجِ درد صہبا بھی مصدق ہے
نہ دل میں کچھ کدورت ہو تو چہرے پر شکن کیوں ہو
نگاہِ ناز کے سرخون ثابت ہو گیا آخر
ہم ایسے خستہ جانوں پر کوئی ناوک فگن کیوں ہو
خرام ناز بھی سر جوش برقِ طور ہے شاید
کسی کا نقشِ پا جامِ مئے موسی فگن کیوں ہو
نہ مشق پردہ دراری ہو اگر پیتا ہوں میں بھی
یہ دردِ دل نقابِ جلوہ عاشق فگن کیوں ہو
وہ میرا گھورنا آنکھیں جھکانا شرم سے انکا
الٰہی ناوکِ ذوقِ نظر آہو فگن کیوں ہو
نہ ہو منظور حسن و عشق اگر محشر بپا کرنا
قداس کافتنہ خیز،آہِ جگر،گردوںفگن کیوںہو
کرشمہ کچھ نہ ہو اس میں جو تیری چشم مے گوں کا
شرابِ جلوہ حسن غنا صوفی فگن کیوں ہو
کسی پروانے کے جل بجھنے کا غم ہو جواے آسی تو
نکل کر کوئی خلوت سے چراغِ انجمن کیوں ہو
٭٭٭