غزل
دل پیرِ مغاں میں چاہئے اے دل ترا گھر ہو
وہی مے نوش جو نورِ نگاہِ چشم ساغر ہو
اگر دل کو یہ چاہو تم کہ منزل گاہِ دلبر ہو
تو جو ہو غیر، تم ہو، یا کہ غیر اِس گھر کے باہر ہو
بہر صورت طلب لازم ہے آبِ زندگانی کی
اگر پایا خضر تم ہو، نہیں پایا سکندر ہو
کوئی توپی کے نکلے گا اڑے گی کچھ تو بو منہ سے
در پیرِ مغاں پر مے پرستو چل کے بستر ہو
ہیولیٰ ہو شبِ دیجور کا میرا غبار اب تک
کسی کا ذرہ ذرہ آفتابِ روزِ محشر ہو
تمہاری ہی بدولت ہے یہ ساری رندی و مستی
وہ دن بھی ہو کہ تم ہو ، ہم ہوں، دورِ جام کوثر ہو
فراق و وصل کے جھگڑے میں ڈالا مجھ کو ظالم نے
غبارِ ہستی وہمی جو اڑ جائے تو بہتر ہو
کبھی تم نے بھی چاہا ہے کسی کو ، لو تمہیں کہہ دو
نہ آئو تم میرے پاس اور صبر آئے، یہ کیونکر ہو
کسی در پر پڑا رو رو کے آسی رات کہتا تھا
کہ آخر میں تمہارا بندہ ہوں تم بندہ پرور ہو
٭٭٭