غزل
غم دُورکروعیش کا سامان دکھا دو
یاپیرمرے دردکادرمان بتادو
کچھ طُورکے سُرمے کی ضرورت نہیں مجھ کو
خاکِ قدم اپنی مِری آنکھوں سے لگادو
بے پردہ ملوعاشق بے تاب سے اپنے
حائل ہے جویہ بیچ کاپرداسواٹھادو
موہوم سی یہ رہ جوگئی ہے مِری ہستی
تم حرفِ غلط کی طرح اس کوبھی مٹادو
شعلے کی طرح پھونک دے جودل کوجگرکو
للہ کوئی ایسی مئے تُندپلادو
یہ ظرف میں وسعت ہے کبھی مُنہ سے نہ نکلے
مے خانے کامے خانہ اگرمُنہ سے لگادو
جس دل میں ہوتم تم سے نہ خالی وہ کبھی ہو
ہے جائے دُعاتم بھی ذرادل سے دعادو
کب تک میں تحمل کروں جھگڑے من دتوکے
اک باردوعالم کے بکھیڑے سے چُھڑادو
ہے عشق وہ شعلہ کہ پھنکاجاتاہے تن من
اس آگ کوبھڑکاکے خودی میری جلادو
موسیٰ کی طرح گرِپڑے غش کھاکے خدائی
بُرقع رُخ ِروشن سے ذراساجوہٹادو
سوتاہے اُسی نیند میں غافل ابھی آسیؔ
اپنے قدمِ پاک کی ٹھوکرسے جگادو
٭٭٭