غزل
سفر کروں تو کبھی راستہ نہیں دیتا
کوئی بزرگ بھی مجھ کو دعا نہیں دیتا
ہر ایک شخص کو رستہ دکھا تو دیتا ہے
کبھی کسی کو وہ اپنا پتا نہیں دیتا
مری زبان مرے ہی خلاف چلتی ہے
مرا ہی خون مجھے اب صدا نہیں دیتا
مکان بھی ہے وہی اور مکین بھی ہیں وہی
کبھی وہ آنکھ کو منظر نیا نہیں دیتا
فراق و وصل کی منزل کوئی نہیں ہوتی
دیے کیوں آنکھوں کے اپنی بجھا نہیں دیتا
بھنور خیال سے کیسے نکلتا میں عادل
یہاں کسی کو کوئی حوصلہ نہیں دیتا
***************