غزل
دلوں کے چین کو خود ہی تباہ کرتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں، کیسے نباہ کرتے ہیں
دعائیں جن کے وسیلے سے بار پاتی ہیں
کرم سے اپنے، گداؤں کو شاہ کرتے ہیں
ہمارے زخم بھی ناسور ہوگئے ہیں اب
سو اپنے زخموں پہ ہم بھی نگاہ کرتے ہیں
جو اپنے ہاتھوں سے سورج کو چھو نہیں سکتا
عروج پر وہ ترے آہ آہ کرتے ہیں
ہر ایک شعر پہ بجتی ہیں تالیاں عادل
بزرگ اب بھی مگر واہ واہ کرتے ہیں
*****************