غزل
نیا فسانہ کوئی اختیار کرتا ہوں
بس ایک کام یہی بار بار کرتا ہوں
مرا ہی سایا مجھے اب حریف لگتا ہے
سو اپنے سائے کا ہی میں شکار کرتا ہوں
میں ٹوٹ پھوٹ گیا ہوں بہت ہی اندر سے
کہ لخت لخت امیدیں شمار کرتا ہوں
جو میرے سینے میں مجھ سے ہی چھپ کے بیٹھ گیا
میں اس کے راہ میں خود کو غبار کرتا ہوں
یہ کیسے لوگ مرے اردگرد رہتے ہیں
یہ کس کو شانے پہ اپنے سوار کرتا ہوں
ٹھہر ٹھہر کے سنورتی ہے رہ گزارِ خیال
کہ جیسے آج بھی میں انتظار کرتا ہوں
کہاں زمانے پہ عادل بھروسہ ہوتا ہے
کہاں میں خود پہ ہی اب اعتبار کرتا ہوں
*************