غزل
زباں پہ لفظ جو آئے اسے کہا جائے
جواب اس کے سوالوں کا بھی دیا جائے
ترے خیالوں سے ہوکر تو میں گزرتا ہوں
کہ دل میں تیرے بھی پیکر مرا سما جائے
سنا ہے لہجے میں اس کے بہت صداقت ہے
چلو ملنگ کی باتوں کو بھی سنا جائے
بہت دنوں سے کوئی چھپ کے مجھ میں بیٹھا ہے
کبھی تو آنکھوں کو اپنی جھلک دکھا جائے
مری نگاہوں میں کتنی دشائیں روشن ہیں
مگر یہ کون بتائے کدھر چلا جائے
میں انتظار میں کس کے یہاں پہ بیٹھا ہوں
مری نگاہ میں سورج مرا ڈھلا جائے
ترے بھی لفظوں میں تاثیر اتنی ہو عادل
زباں سے نکلے تو پھر عرش تک صدا جائے
**********