غزل
ماضی نے جو لکھی تھی وہ تحریر دیکھ لی
دنیا نے اپنے حال کی تصویر دیکھ لی
اب خیر ہی مناؤ کہ شہر پناہ میں
پیاسی کسی کی آنکھ نے شمشیر دیکھ لی
دل نے تو کرلیا ترے چہرے کا انتخاب
نظروں سے پوچھ لینا کہ تفسیر دیکھ لی
اپنا ہی مل سکا نہ اسے آج تک سراغ
کرکے ہر ایک اس نے بھی تدبیر دیکھ لی
لاکھوں جتن کے بعد بھی حاصل نہ کچھ ہوا
بگڑی ہوئی سی اپنی ہی تقدیر دیکھ لی
کیوں محو ہے طواف میں اپنی ہی ذات کے
دنیا نے تیرے پاؤں کی زنجیر دیکھ لی
دیوار و در کی اب کوئی حاجت نہیں حیات
گوشہ نشینوں نے بھی تشہیر دیکھ لی
**********************