غزل
میں بڑھانا چاہتا ہوں رابطہ کچھ اور ہی
بڑھ رہا ہے درمیاں پر فاصلہ کچھ اور ہی
یوں تو ہیں لاکھوں مناظر میری آنکھ پر عیاں
ذہن میں تازہ ہے لیکن واقعہ کچھ اور ہی
سامنے آنے سے میرے کررہا ہے وہ گریز
کس طرح فطرت نے بدلا آئینہ کچھ اور ہی
رہ نما بن کر کھڑا تھا کل تلک جو راہ میں
ڈھونڈنے نکلا ہے اب وہ راستہ کچھ اور ہی
گھر کے باہر ہے بہت پرامن یوں ساری فضا
جاگتا ہے گھر کے اندر حادثہ کچھ اور ہی
چند سانسوں کے لیے بے چینیاں بڑھ تو گئیں
ہے مگر میرے مقدر میں لکھا کچھ اور ہی
ماں سے اپنی دور بھی خوش ہے بہت عادل حیات
آرہی ہے کان میں اس کی صدا کچھ اور ہی
***************