غزل
عدل کی زنجیر یوں تو دسترس سے دور ہے
ہاں، مگر عدلِ جہانگیری بہت مشہور ہے
سلسلہ بے ربط خوابوں کا اگا ہے آنکھ میں
دل، شکستہ خواہشوں سے میرا لیکن چور ہے
بے بسی نے رنگ کچھ ایسا دکھایا ہے ہمیں
ہر خوشی سے دل ہمارا اب تلک مہجور ہے
ایک اک کرکے بجھے ہیں چاہتوں کے سب چراغ
دل کی سرحد پر مگر پھیلا ہوا سا نور ہے
کررہی ہیں میری آنکھیں آج کل کس کا طواف
سامنے جلوہ نما ان کے بھی کوئی طور ہے
بند آنکھوں سے نظر آتا ہے عادل وہ ہمیں
اور کھلی آنکھیں اگر ہوں تو سدا مستور ہے
*****************