غزل
کون کہتا ہے کہ میرے گھر سے خوش حالی گئی
پھر چراغ دل جلا کر اب کہ دیوالی گئی
رفتہ رفتہ نفرتوں کے سارے رشتے گم ہوئے
سرحدوں کے بیچ سے دیوار اٹھوالی گئی
قافلے تاریکیوں کے آگے جب بڑھنے لگے
آنکھ کے صحرا سے ہوکر ساری ہریالی گئی
اک مسلسل کرب کا سایا دلوں پر چھاگیا
رات تو اچھی کٹی تھی صبح کی لالی گئی
دل کے جتنے مسئلے تھے کھلکھلا کر ہنس پڑے
جان پتھر کے بتوں میں جب کبھی ڈالی گئی
بے خبر میں ہی تھا عادل عاجزی کے شہر میں
سازشیں سب نے رچیں اور دشمنی پالی گئی
*****************