غزل
لبوں سے شکوہ نہ دل سے ہی آہ کرنا تھا
اسے حیات سے اپنی نباہ کرنا تھا
نظر کتاب میں منظر کوئی ابھر آتا
زمیں حصار کو بھی رقص گاہ کرنا تھا
نئے چراغ سے مرعوب ہوگیا کیسے
اسے ضمیر سے اپنے نباہ کرنا تھا
عبادتوں سے زمیں تنگ ہوگئی ہے جب
خلا کی آنکھ کو بھی عید گاہ کرنا تھا
نئی لکیر ہتھیلی پہ کھینچ دی ہوتی
کہ مجھ غریب کو قسمت کا شاہ کرنا تھا
کوئی بھی سمت نہیں تھی مری حیات میں جب
خلا کی راہ سے مجھ کو نباہ کرنا تھا
اٹھے ہزارہا طوفان اس لیے عادل
کہ شاخِ فکر کو تیری نباہ کرنا تھا
*************