غزل
آنکھ میں ٹھہرا ہوا منظر بہت اچھا لگا
ہاتھ میں اس شخص کے خنجر بہت اچھا لگا
ٹمٹماتے شہر کی اس روشنی کو دیکھ کر
آنکھ میں پھیلا ہوا بنجر بہت اچھا لگا
پھر ہجومِ زندگی سے دل مرا گھبرا گیا
پھر وہی تنہائیوں کا گھر بہت اچھا لگا
ہونٹ آگے تھے سمندر دور تک پھیلے ہوئے
پر تری اس پیاس کا منظر بہت اچھا لگا
ہجر پروازوں کا دل میں جب کبھی آیا خیال
کٹ کے شانے سے گرا بازو بہت اچھا لگا
آسماں کی بے کرانی تک مری پرواز تھی
وہ حصارِ چشم سے باہر بہت اچھا لگا
دن کے سونے پن میں عادل نیند جب بھی آگئی
خواب میں جاگا ہوا منظر بہت اچھا لگا
***************