غزل
خیال بن کے مرے دل کے پاس رہتا ہے
بچھڑ کے مجھ سے وہ لیکن اداس رہتا ہے
وہ جس نے چھین لیا میری آنکھ سے منظر
وہی تو شہر میں اک خوش لباس رہتا ہے
مری نگاہیں ترا کیوں طواف کرتی ہیں
زباں کی نوک پہ کیوں التماس رہتا ہے
میں سونے پن کو بساتا ہوں اپنے خوابوں میں
وہ لوٹ آئے گا لیکن قیاس رہتا ہے
گزر گیا ہوں میں ردّو قبول سے آگے
کسی بھی شے پہ کہاں التباس رہتا ہے
تلاش جس کی رہی شہر جستجو کو حیات
وہ عکس ہے تو مرے آس پاس رہتا ہے
************