غزل
مرے نصیب میں کیا ہے، مجھے نظر آئے
یہ اور بات کہ پھر میری آنکھ بھر آئے
تمہارا عکس اسی میں تلاش کرلوں گا
کبھی تو خواب میں پیکر کوئی نظر آئے
یہ سوچ کر میں کھڑا ہوں نگارخانے میں
جو مجھ میں داغ ہو، وہ عکس میں ابھر آئے
سمیٹ رکھّا ہے سانسوں کو اپنے سینے میں
تمہارے شہر سے کیا جانے کیا خبر آئے
وجود حسن کا بکھرا ہوا تھا حصّوں میں
بدن کتاب میں یکجا اسے بھی کر آئے
ہر آتے جاتے مسافر کی راہ تکتا ہوں
تو خیر سے ہے، کوئی لے کے یہ خبر آئے
مری بھی آنکھ میں نقشہ کوئی تو ہو عادل
سیاہ رات میں کچھ خواب سا نظر آئے
**************