غزل
میں خواہشوں کی ہر اک انتہا سے ڈرتا ہوں
فنا کا ذکر نہیں ہے، بقا سے ڈرتا ہوں
لباس شہر نے جب سے اتار پھینکا ہے
میں اپنی آنکھ کی شرم و حیا سے ڈرتا ہوں
جو آئے نیند تو سپنے بکھرنے لگتے ہیں
بس اس لیے ہی میں ٹھنڈی ہوا سے ڈرتا ہوں
یہ بات اور کہ میں سچ بھی کہہ نہیں سکتا
مگر میں جھوٹ کی ہر اک صدا سے ڈرتا ہوں
یہ چاہتا ہوں شہیدوں میں نام ہو اک دن
سلامتی کی میں ہر اک دعا سے ڈرتا ہوں
بہت ہی دور سے سورج نگاہ سے عادل
مگر میں ذہن کی اجلی فضا سے ڈرتا ہوں
****************