غزل
کبھی زمین، کبھی آسماں سجاتا ہوں
میں کس کی آنکھوں میں اپنا جہاں سجاتا ہوں
میں داستانوں میں خود کو ہی ڈھال لیتا ہوں
اور اپنے خون سے پھر سرخیاں سجاتا ہوں
مری حیات کا حاصل کہاں ہے اس کے سوا
بچھڑ کے خود سے نیا کارواں سجاتا ہوں
اسی کو دور میں رکھتا ہوں اپنی آنکھوں سے
اسی کی آس سے وہم و گماں سجاتا ہوں
نئے زمانے کی طغیانیاں ڈراتی ہیں
سو میں کنارے پہ ہی کشتیاں سجاتا ہوں
مرے بھی شعروں میں سادہ زبان ہوتی ہے
میں سادگی ہی سے طرزِ بیاں سجاتا ہوں
مجھے تلاش ہے اپنی بس اس لیے عادل
سفر خیال میں نام و نشاں سجاتا ہوں
**************