غزل
وہ میری آنکھ کا جوہر کہاں ہے
چھٹی ہے دھند پر منظر کہاں ہے
مکاں تو شہر میں بھی مل گئے تھے
تصور میں بسا وہ گھر کہاں ہے
فضا پر ثبت وہ رقعے کہاں ہیں
وہ اس کی یاد کا دفتر کہاں ہے
بھٹکتا پھر رہا ہوں آج تک میں
نظر میں کوئی بھی پیکر کہاں ہے
اسے آنکھوں میں روشن دیکھتا ہوں
حریفِ جاں مرے باہر کہاں ہے
کہاں جاؤں میں دشت کربلا میں
کھلا اپنے ہی گھر کا در کہاں ہیں
بلندی، آسماں کی چھو ہی لیتے
تری گردن پہ عادل سر کہاں ہے
************