غزل
آس کے پت جھڑ میں آندھی سے بھی ڈر سکتا نہیں
ٹوٹ کر شاخیں انا سے میں بکھر سکتا نہیں
زخم کھاکر پھول سارا بلبلا اٹّھا تو ہے
باغ میں کانٹوں سے لیکن بیر کرسکتا نہیں
قافلے ہوں جس قدر پیچھے مرے فرعون کے
خوف سے ان کے سمندر میں اتر سکتا نہیں
وقت کو زنجیر کرنا کس کو آتا ہے یہاں
آہٹوں سے وقت کی لیکن میں ڈر سکتا نہیں
ہیں بہت بے رنگ آنکھیں اور ہیں اجڑے دیار
کوئی ان بے رنگیوں میں رنگ بھر سکتا نہیں
پینٹ کرکے زندگی کو جس نے دکھلایا ہمیں
وہ مصوّر کینوس پر اپنے مرسکتا نہیں
باندھ لے شہپر کو اپنے آج سے عادل حیات
سرحدوں کے آگے جو پرواز کرسکتا نہیں
************