غزل
خواہشیں دل کو بجھے بھی اک زمانہ ہوگیا
بے بسی تجھ سے مرا رشتہ پرانہ ہوگیا
تھا بہت مشہور وہ اپنے ہنر کے رنگ میں
آج پھر اس سے خطا کیوں ہر نشانہ ہوگیا
آؤ پھر دل کی عبادت گاہ مشترکہ بنے
نفرتوں کے شہر میں آنسو بہانا ہوگیا
پیڑ کوئی کب خوشامد کا سمایا آنکھ میں
راہ چلتے دھوپ کا منظر سہانا ہوگیا
چھوڑ کر آیا ہے گھر کو جب سے عادل شہر میں
ہر کسی سے رشتہ اس کا تاجرانہ ہوگیا
*************