غزل
نہیں تھی جان مگر وہ بھی مسکرایا تھا
وطن کے نام پہ جس نے لہو بہایا تھا
فساد آنکھوں سے بچ کر وہ آگیا کیسے
کسی کا سر پہ نہیں اس کے کوئی سایا تھا
تلاش میں ہوں اسی کی میں حدِّامکاں تک
خیال جس کا یہاں مجھ کو لے کے آیا تھا
وہ ایک شخص کہ چہرے کو پڑھ گیا کیسے
ہمارے حال پہ گرد و غبار چھایا تھا
میں اس کو بھولنا چاہوں یہ ہو نہیں سکتا
وہی تو ہے کہ بھنور سے نکال لایا تھا
یہ زندگی تو گزر ہی گئی، مگر سچ ہے
کوئی سکون کا لمحہ نہ میں نے پایا تھا
تمہاری آنکھ کا دریا بھی خشک ہے عادل
وہ لے کے پیاس کا صحرا یہاں تک آیا تھا
*****************