غزل
مجھ سے کہتا تھا کچھ مرا سایا
جان کر بھی سمجھ نہیں پایا
دل کی سرحد سے جب بھی گزرا میں
سارا ماحول ماتمی پایا
گھر کی دیوار گرگئی کیسے
لٹ گیا کیسے سارا سرمایا
ایک مدّت گزار دی دل نے
آج جیسا کبھی نہ گھبرایا
حال بھی چھا گیا ہے آنکھوں میں
بھول ماضی کو بھی نہیں پایا
جس کو مدّت لگی بنانے میں
ایک ساعت نے ہی اسے ڈھایا
جب بھی ملنے کی جستجو جاگی
آکے محفل میں اس کی اکتایا
دیکھ کر عکس چیخ اٹھا عادل
آئینہ جب بھی روبرو آیا
**************