غزل
سلیقے سے اب اپنی زندگی کرلوں
وہ مالک ہے تو اس کی چاکری کرلوں
اندھیری رات گہری ہورہی ہے
جلا کر خون اپنا روشنی کرلوں
وہی تو شہر میں سب کا مسیحا ہے
کہو، اس سے میں کیسے دشمنی کرلوں
ذرا سی دیر سارے دکھ بھلا دوں میں
ذرا سی دیر خود سے دل لگی کرلوں
اکیلا پن مجھے اب بھی ستاتا ہے
در و دیوار ہی سے دوستی کرلوں
برائی کرنے سے اوروں کی اچھا ہے
کہ پہلے گھر میں اپنے شانتی کرلوں
مرا سایا ہی مجھ کو اب ڈراتا ہے
کسی سائے سے کیسے دشمنی کرلوں
مرے بچّے ہیں بھوکے پیٹ اے عادل
کہاں جاؤں میں کیسے خودکشی کرلوں
************