غزل
یہ تیری دید کا منظر ہے، معجزہ تو نہیں
کہ میرے ذہن کا یہ کوئی واہمہ تو نہیں
جو سرخ سرخ مناظر افق پہ بکھرے ہیں
نظر کا دھوکہ ہے یا کوئی حادثہ تو نہیں
وہ رہ گذر جو ترے گھر کی سمت جاتی ہے
وہ چاہتوں کا مری آخری سرا تو نہیں
نظر اسی کا ہمیشہ طواف کرتی ہے
رہِ حیات میں بکھرا وہ جابجا تو نہیں
مرے ہی کانوں میں جو گونجتی ہے رات گئے
مرے لبوں ہی سے نکلی ہوئی صدا تو نہیں
اسے ہی لوگ نظر بھر کے دیکھتے ہیں کیوں
کہ ظلمتوں میں وہی آخری دیا تو نہیں
قرار کیسے ترے دل کو آگیا عادل
جواب تیرے سوالوں کا کچھ ملا تو نہیں
*****************